یہ فیصلہ بھی بچہ خود ہی کرتا یہ وہ کب پیٹ کے بل رینگنے لگے گا کب کھڑا ہوگا اور چلنا شروع کرے گا پہلے زمانے میں مائوں کا خیال تھا اگر بچے کو جلدی ہی نہ چلنا سکھادیا جائے تو اس کی ٹانگیں ٹیڑھی ہوجاتی ہیں لیکن جدید تحقیقات نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے
کہتے ہیں نومولود بچہ کم آمیز (UN-SOCIABLE) ہوتا ہے اسے صرف اپنی ذات کی خبر ہوتی ہے، اس لئے وہ دوسروں سے میل جول کی بظاہر کوئی کوشش نہیں کرتا، تاہم اس کے اندر اس کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے، اگر اس کی شخصی اور احساسات کو سمجھنے اور مخفی صلاحیتوں کوا بھارنے کی کوشش کی جائے تو آدمی خاصا کامیاب رہتا ہے پیدائش کے بعد جب بچہ سنبھلتا ہے تو وہ ہمک ہمک کر ماں کی گود میں جانے کیلئے ہاتھ پائوں مارتا ہے، یہ دوسروں کے ساتھ اس کے رابطے کی اولین کوشش ہے، جب ماں اسے گود میں اٹھاکر پکارتی ہے تو بچہ تحت الشعور میں اسے اپنا مہربان سمجھنے لگتا ہے، جس جس انداز سے کوئی اسے اٹھاتا اور بہلاتا ہے اس کے ذہن میں ویسے ہی نقوش ثبت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بچہ اس سلوک کو پوری طرح سمجھتا ہے کہ اٹھانے والا مشقت اور محبت سے پیش آرہا ہے یا بے دلی اور خفگی کے ساتھ بیگار ٹال رہا ہے۔ پیدائش کے تجربے سے سنبھلنے میں نومولود کو کئی دن لگتے ہیں، اسے پہلی بار بھوک اس وقت محسوس ہوتی ہے جب قدرت کی طرف سے ماں کی چھاتیوں میں اس کی سیرابی کا انتظام ہوجاتا ہے۔ عموماً پیدائش کے تیسرے روزماں کا دودھ اتر آتا ہے ڈاکٹر اور حکیم بچے کیلئے ماں کے دود ھ کو سب سے زیادہ مفید اور ناگزیر بتاتے ہیں۔ ایک اہم سبب یہ ہے بچہ ماں کی دھڑکن اور ان کے ہاتھوں کے لمس سے بڑی راحت محسوس کرتا ہے، اسی طرح اگر اسے ہاتھوں میں لے کر جھلائیں یا پیار بھری لوریاں سنائیں تو وہ باغ باغ ہوجاتا ہے۔ نوزائیدہ بچے سے کسی دانشمندانہ اور اپنی مرضی کے مطابق رد عمل کی توقع مثبت ہے جو مائیں بچے کو ہنسانے کیلئے اسے جھنجھوڑتی، دبوچتی اور گدگداتی ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں، عین ممکن ہے کہ ماں کی اس دل لگی سے بچے کے ذہن پر ناگوار اثر پڑے اور وہ کھلکھلانے کی بجائے منہ بسور کررونا شروع کردے۔ ابتداء میں بچہ تجربے کے طور پر مسکراتا ہے جب اپنے آس پاس والوں کو ہنستے دیکھتا ہے تو ان کی نقالی کرتے ہوئے خود بھی ہنسنے لگتا ہے۔ پیدائش کے بعد دو ہفتے تک بچہ سونے اور دودھ پینے کے علاوہ کسی مشغل سے آشنا نہیں ہوتا۔ نہ ہی اس کے بعد ان میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ کوئی کام کرسکے رحم مادر میں پرورش کے دوران وہ کشش ثقل سے محفوظ رہتا ہے، اس لئے پیدائش کے بعد جب کشش ثقل سے واسطہ پڑتا ہے تو گھبراجاتا ہے، آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ نہاتے وقت بچہ بڑی راحت محسوس کرتا ہے، اس کی وجہ پانی میں تیرنے کی قوت ہے جس کی بدولت کچھ دیر کیلئے بچے کو کشش ثقل سے نجات مل جاتی ہے اور وہ گو نہ مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ بچہ دو ہفتے کا ہوجائے تو نیند کم‘ غلبہ کم ہوجاتا ہے اب وہ خاصا وقت جاگ کر گزارتا ہے اور مختلف چہروں سے کھلنے کا اشتیاق ظاہر کرتا ہے، ماں کی چھاتیاں اس کیلئے قدرتی کھلونا ہیں، چنانچہ وہ دودھ پینے کے ساتھ ساتھ ان سے کھیلتا بھی رہتا ہے، مناسب یہ ہے کہ اس کو کھیل سے نہ روکا جائے، ا لبتہ جب وہ اٹھنے بیٹھنے اور گھٹنوں کے بل چلنے لگے تو کسی دوسرے کھلونے سے مانوس کرادیجئے، لیکن یہ قدم بھی اچانک اور یکبارگی نہ اٹھائیے بلکہ دودھ چھڑانے کی طرح آہستہ آہستہ اٹھائیے۔ زمانہ قدیم میں مائیں بچے کو دیر تک رونے دیتی تھیں ان کا خیال تھا کہ زیادہ روئے تو بھوک خوب لگتی ہے لیکن جدید سائنسی انکشافات نے اس نظریے کو باطل کردیا ہے بچوں کے ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بھوکا بچہ دیر تک روتا رہے تو اس کا پیٹ ہوا سے بھر جاتا ہے اور بھوک مرجاتی ہے جب اسے بعد از وقت خوراک ملتی ہے تو آدھی کھاکر منہ پھلالیتا ہے، تھوڑی دیربعد وہ دوبارہ رونے لگتا ہے گویا کہتا ہے میں ابھی بھوکا ہوں۔ یہ فیصلہ بھی بچہ خود ہی کرتا یہ وہ کب پیٹ کے بل رینگنے لگے گا‘ کب کھڑا ہوگا اور چلنا شروع کرے گا پہلے زمانے میں مائوں کا خیال تھا اگر بچے کو جلدی ہی نہ چلنا سکھادیا جائے تو اس کی ٹانگیں ٹیڑھی ہوجاتی ہیں لیکن جدید تحقیقات نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے، در حقیقت بچے کی ٹانگوں میں خم اس وقت آتا ہے جب اسے چلنے سے پہلے ٹانگوں پر بوجھ ڈالنے کا موقع نہیں ملتا۔ تمام صحت مند بچے آغوش مادر ہی میں کھڑا ہونے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں ٹانگوں کو مضبوط کرنے اور چلنے کی قوت بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہےتاکہ ہڈیاں مناسب طریقے سے نشوونما پاسکیں جن بچوں کی کمزور اور ترقی پذیر ٹانگوں پر پورا وزن پڑ جاتا ہے وہ اکثر صورتوں میں ٹیڑھی ہوجاتی ہیں۔ بچوں کیلئے قوت گویائی کا استعمال سب سے دشوار ہے اس سلسلے میں اسے کئی مراحل طے کرنے ہوتے ہیں، بعض بچے چند ہی ہفتے بعد ہونٹوں کی جنبش آواں آواں‘ غاں غوں کرکے بڑوں کی نقل اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے کی زبان پر پہلے ’’چوں چوں غر غر‘‘ کے الفاظ آتے ہیں جب ہونٹ بھی اس عمل میں شریک ہوجاتے ہیں ’’ماما‘‘ کی آواز ابھرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نومولود کی زبان سے ’’ڈاڈا‘‘ (باپ) پہلے اور ماما(ماں) بعد میںنکلتا ہے حالانکہ اصولی طور پر ماما پہلے آنا چاہیے۔ بچے کی پیدائش اور تربیت میں ماں جو کردار ادا کرتی ہے باپ اس کا عشر عشیر بھی انجام نہیں دیتا۔ بچہ فطرتاً نئی چیزوں سے متعارف ہونے کی خواہشمند ہوتا ہے اس معاملے میں وہ بڑی دلیری اور جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے، یہ بات اس کے علم میں بتدریج آتی ہے کہ غلط کام کرنے سے سزا ملتی ہے۔ جوان آدمی کی طرح بچے کو بھی بعض پریشانیاں اور مایوسیاں بری طرح ستاتی ہیں، تاہم اس سے یہ نہ سمجھئے کہ معمولی شورش اور ہل چل سے بچے کا ذہن متاثر ہوجاتا ہے عام مشاہدہ ہے کہ جن گھرانوں میں مشاغل کا اختلاف اور افراد کا باہم ٹکرائو موجود ہوتا ہے ان کے بچے ان گھروں کی نسبت زیادہ حوصلہ اور دلیر ہوتے ہیں جہاں مصنوعی سکون کی فضا پائی جاتی ہے۔ ایسے بچے بیرونی دنیا کے نشیب و فراز سے آگاہ نہیں ہوپاتے اور آئندہ زندگی میں ناکامی سے دو چار ہوتے ہیں۔ علم کی پیاس بچے کی فطری میں ودیعت ہوتی ہے وہ ہر نئی چیز کی طرف تیزی سے لپکتا ہے کچھ دیر اس سے دل بہلانے کے بعد اسے حقارت سے پرے پھینک دیتا ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ میں نے اس چیز کے بارے میں کچھ جان لیا ہے، اب کوئی اور چیز لائو۔ ماہرین کہتے ہیں بچہ نوے سیکنڈ میں ہر نئے کھلونے کے بارے میں ضروری باتیں جان لیتا ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں